Pages

Tuesday, August 15, 2006

Allao Urdu Novel By M.Mubin Part 11

٭گیارواں باب
صبح کےساتھ بند کا آغاز ہوا تھا۔ بند بڑی عجیب ڈھنگ کا تھا۔ اس نےپہلی بار اس طرح کا بند دیکھا تھا کاروبار تو سب بند تھا۔ لیکن گاو
¿ں کاہر فرد سڑک پر تھا۔ سڑکوں پر جگہ جگہ سینکڑوں کی تعداد میں میں لوگ مجمع کی شکل میں کھڑےتھی۔یابیٹھےتھی۔ اس دن کی اخبارات کی سرخیاں پڑھ کر سنائی جارہی تھیں۔ نیتا قسم کےلوگ فرقہ پرستی کےزہر میں الجھی تقریرں کررہےتھی۔ ٹیلی فون اور موبائل پر دوسرےشہروں سےخبریں موصول ہو رہی تھی۔ ٹی وی پر اس بند کی خبریں بتائی جارہی تھی۔ باربار جلتی ٹرین کےڈبے،جلی ہوئی لاشیں، مرنےوالوں کےرشتہ داروں کےاشتعال انگیز بینات، لیڈروں کےزہریلے،اشتعال انگیز تبصرےاور جگہ جگہ بند کےاثرات کا لائیو ٹیلی کاسٹ.... ہاتھوں میں ننگی تلواریں۔ ترشول،ماتھےپر بھگوا کپڑا باندھےاشتعال انگیز نعرےلگاتےسڑکوں سےگذرنےوالےجلوس کی تقریرں ۔اچانک جلوس کی نظر سڑک کےکنارےبنےایک کیبن پر پڑتی ہےجس پر لکھا ہےفیروز الیکٹرک ورکس۔ جلوس اس پر ٹوٹ پڑتا ہی۔ کیبن الٹ دیا جاتا ہےکیبن کےچیزوں کو پیروں سےکچلا جاتا ہی۔ توڑا جاتا ہی۔ سڑک کےوسط میں آکر اسےآگ لگادی جاتی ہی۔ ایک آٹو رکشا پر ”ھذا من فضل ربی“لکھا ہی۔ اسےبیچ سڑک پر الٹ دیا جاتا ہی۔ اس پر پیٹرول چھڑک کر اس پر آگ لگادی جاتی ہی۔ ایک گذرتی ہوئی جیپ کو روکا جاتا ہی۔ اس پر ٦٨٧ لکھا ہی۔ اس کےڈرائیورکو جیپ کےنیچےاتار ا جاتا ہےاورپورا مجمع اس پر ٹوٹ پڑتا ہی۔ وہ اپنےآپ کو بچانےکی کوشش کرتا ہے۔ کچھ لوگ جیپ کو الٹ دیتےہیں۔ اوراس پر پیٹرول چھڑک کر اس میں آگ لگادیتےہیں۔جیپ کےزخمی ڈرایئور کواس جلتی ہوئی جیپ میں ڈال دیا جاتا ہی۔ سینکڑوں لوگوں کا ٹولہ بند دوکانوں کےنام دیکھ دیکھ کر انھیں توڑتےپھوڑتےہیں۔ ان کا سامان لوٹتےہیں اور سامان کو سڑک کےوسط میں لاکر آ لگادیتےہیں۔ دوکانوں پر پیٹرول چھڑک کر ان پر آگ لگائی جارہی ہی۔ یہ تمام مناظر ٹی وی پر دکھائےجاہےتھی۔ ایسا محسوس ہورہا تھا جیسےان کا کام مناظر کو دکھاکر ایک طرح سےاشارہ دیا جارہا ہی۔ اور لوگ اس اشارےکو سمجھ رہےتھی۔ اور پھر ہر جگہ اسی طرح کےواقعات دہرائےجانےلگی۔ چوک پر جمع لوگوں کی بھیڑ نےایک اشتعال انگیز فلک شگاف نعرہ لگایا ۔”ہر ہر مہادیو“”جئےبجرنگ بلی“”جی شری رام “اور دوسرےہی لمحہ پورا مجمع چوک کی دوکانوں پر ٹوٹ پڑا۔ کچھ لوگ چھوٹی چھوٹی دوکانوں پر ٹوٹ پڑےتو باقی بڑےمجمع نےسیف ہوٹل اور اقصیٰ کمپیوٹر انسٹی ٹیوٹ کو نشانہ بنایا۔ لوہےکی سلاخوں سےسیل سیف ہوٹل کےشٹروں کو توڑا گیا ۔اور ان ہی لوہےکی سلاخوں سےہوٹل کا سامان توڑا پھوڑا جانےلا۔ لکڑیوں کےسامان کو سڑک کےدرمیان لاکر آگ لگائی جانےلگی۔ ہوٹل میں تیل چھڑک کر اسےآگ لگادی گئی ۔کچھ قیمتی سامان لٹیروں کےہاتھ لگ گیا وہ اسےلوٹ کر اپنےاپنےگھروں کی طرف لےجانےلگی۔ وہ دوکان سےجیسےہی چوک کی طرف آیا تھا اس نےسب سےپہلےیہ مناظر دیکھےتھی۔ سیف ہوٹل تو جل رہی تھی۔ اب اقصیٰ کمپیوٹرس کو توڑنےکی کوشش کی جارہی تھی۔ اس کےدل میں آیا کےوہ آگےبڑھ کر مجمع کو ایسا کرنےسےروکےلیکن ہزاروں افراد پر مشتمل مجمع کو و ہ اکیلا کیسےروک سکتا تھا۔ لوہےکی سلاخوں سےشٹر توڑ دیئےگئی۔ تھی۔ اب ان سلاخوںسےاندر کی کانچ اور فرنیچرتوڑا جارہا تھا۔ کمپیوٹر کےمانیٹر اور سی پی یو سروں پر اٹھا کر زمین پر پٹخا جارہا تھا ۔ اور انھیں پیروں تلےروندہ جارہا تھا۔ لوہےکی سلاخوں سےان پر ضرب لگا کر ان کےٹکڑےکیےجارہےتھی۔ ایک ....دو....تین .... چار ....دس ....بیس .... پچیس.... سارےکمپیوٹر س بتاہ کردئےگئےتھی۔ سارا سامان نیست و نابود کیاجاچکا تھا۔ جاوید کےآفس کو تہس نہس کیا جارہا تھا۔ سامان جمع کرکےسڑک کےوسط میں لےجایاجارہا تھا۔ اور ان پر پیٹرول تیل انڈیل کر اس میں آگ لگائی جارہی تھی۔ پھر پورےکمپیوٹر انسٹی ٹیوٹ کےسامان پر تیل چھڑک کر اس میں آگ لگادی گئی۔ اقصیٰ انسٹی ٹیوٹ جل رہا تھا۔ وہ انسٹی ٹیوٹ جو علم کا گھر تھا۔ جہاں گاو
¿ں کےبچےکمپیوٹر کا علم سیکھتےتھی۔ جو ساری دنیا میں بسےگاو
¿ں کےلوگوں سےرابطہ کا ایک مرکز تھا۔ جہاں انٹرنیٹ کےذریعے،ایمیل اور چیٹنگ کےذریعےلوگ غیر ممالک میں آباد اپنےرشتہ داروں ،عزیزوں سےپل بھر میں رابطہ قائم کرکےخیالات کا تبادلہ کرتےتھی۔ اسی رابطہ کےمرکز کو جلا کر خاک کردیا گیا تھا۔ کوئی بھی روکنےوالا نہیں تھا۔ دوتین دنوں تک پورا گاو
¿ں پولیس کی چھاو
¿نی بنا ہوا تھا۔ لیکن اس وقت کوئی بھی قانون کا رکھوالا سڑک پر دکھائی نہیں دےرہا تھا جو مجمع کو ایسا کرنےسےروکی۔ چوک کی مسلمانوں کی چھوٹی بڑی دوکانوں کو چن چن کر نشانہ بنایا گیا اور انھیں نیست و نابود کرکےجلاکر خاک کرکےمجمع اشتعال انگیز نعرےلگاتا آگےبڑھا۔ اس کا رخ مسلمانوں کےمحلےکی طرف تھا۔ راستہ میں جو بھی مسلمان دکھائی دیتا مجمع نعرےلگاتا اسپر ٹوٹ پڑتا۔ اسےتلواروں اور ترشول سےچھید کر ایک لمحےمیں ہی لاش میں تبدیل کردیا جاتا تھا۔ راستہ میں جو اکادکا مسلمان کےمکانام ملتےمجمع اس پر پڑتا ۔دروازےتوڑکر ان کےمکینوں کو باہر نکالا جاتا اور انھیں ترشولوں کی نوک پر لےلیا جاتا ۔ عورتوں ،لڑکیوں پر کئی وحشی ٹوٹ پڑتے۔معصوم چھوٹےبچوں کو فٹبال کی طرح ہوا میں اچھالا جاتا ۔گھروں کو آگ لگادی جاتی۔ اور پھر اس آگ میں ترشول سےچھلنی جمسوں کو جھونک دیا جاتا ۔معصوم بچوں کو ترشول کی نوک پر روک کر انھیں آگ میں اچھالا دیا جاتا تھا۔ مجمع جیسےجیسےآگےبڑھ رہا تھا ۔ اپنےپیچھےآگ، خون، لاشوں کو چھوڑتا آگےبڑھ رہا تھا۔ مسلمانوں کےمحلےکےپاس پہنچ کر مجمع رک گیا۔نکڑ پر سو کےقریب مسلمان ہاتھوں میں لاٹھیاں لیےکھڑےتھی۔ ان کےمدمقابل ٢ہزار سےزائد کا مجمع تھا۔ اس کو دیکھ کر ہی سب کےہاتھ پیر پھول گئی۔ لیکن سامنا تو کرنا تھا۔ دونوں طرف سےپتھراو
¿شروع ہوگیا۔ سامنےسےچالیس پچاس پتھر آئےتو ادھر سےسو دو سو پتھر ان کی طرف بڑھے۔ پتھراو
¿ میں کئی لوگ زخمی ہوکر میدان چھوڑگئی۔ باقی پر مجمع اس طرح ٹوٹا جیسےگدھ کسی لاش پر ٹوٹتےہیں۔ دوبدو مقابلےکا نظارہ ہی نہةیں تھا۔ ایک ایک آدمی کو بیس بیس، پچیس پچیس آدمیوں نےگھیر رکھا تھا۔ اوراس پرچاروں طرف سےلاٹھیاں، تلواروں اور ترشولوں سےحملہ ہورہا تھا۔ تھوڑی دیر میں اس کی لاش زمین پر گری تو اس کےمردہ جسم میں ترشولوں اور تلواروں کو گاڑ کر فتح کا جشن منایا جاتا ۔تھوڑی دیر بعد کوئی بھی مقابلہ کرنےوالا نکڑ پر نہیں بچا تھا۔ تمام مقابلہ کرنےوالوں کی یا تو لاشیں وہاں پڑی تھیں یا پھر زخمی ةوکر وہ جا بچا کر بھاگ گئےتھی۔ اب مجمع پورےمحلےپر ٹوٹ پڑا تھا۔ ایک ایک گھر پر سوسو سےزائد افراد ٹوٹو پڑے۔ دروازےتوڑےجاتے۔مکان کےمکینوں کو مکان سےباہر کھینچ نکالا جاتا ۔ان کو ترشولوں سےچھلنی کردیا جاتا ۔ بچوں کو ترشولوں پر اچھالا جاتا۔عورتوں اور لڑکیوں پر بھوکےبھیڑیےکی طرح ٹوٹ پڑتی۔ چاروں طرف شور،شیطانی نعروں کی گونج ،عورتوں کی چیخ و پکار ،بچوں کےرونےکی آواز ، مرنےوالوں کی آخری چیخیں گونج رہی تھی۔ جو دروازےنہیں ٹوٹ پاتے۔ان مکانوںپر تیل چھڑک کر انھیں آگ لگادی جاتی۔ جوان عورتوں اور بچوں کو سرےعام ننگا کرکےان سےزنا کیا جاتا ۔مجمع وحشی بنا۔ اس منظر سےلطف اندوز ہوکر شیطانی قہقہےلگاتا۔ حاملہ عورتوں ک پیٹوں کو چاک کرکےان سےنو زائید بچوں کو نکال کر آگ میں جھونک دیا جاتا۔ سب گھر کر رہ گئےتھی۔ ان سےبچنا محال تھا۔ گھروں میں آگ لگائی جارہی تھی۔ جلتےگھروں میں لوگ زندہ جل رہےتھی۔ گھٹ کر مررہےتھی۔ جو گول جان بچانےکےلیےجلتےگھروں سےباہر آنےکی کوشش کرتےانھیں ترشول کی نوک سےجلتےگھروں میں واپس ڈھکیلا جاتا۔ عجیب منظر تھا۔ ایسا منظر تو فلموں میں بھی آج تک دکھایا نہیں گیاتھا۔ہلاکوں اورچنگیز پر بنائی فلموں میں بھی اس طرح کےمناظر دھکانےکی جرا
¿ت دنیا کےکسی فلم ڈائریکٹر نےنہیں کی تھی۔وہ مناظر اپنی آنکھوں سےپورا مجمع دیکھ رہا تھا۔ لیکن کسی کا دل نہیں پگھل رہا تھا ،نہ کسی کےچہرےپر اپنےان گھناو
¿نےکاموں کی وجہ سےمذامت کی پرچھائی لہرارہی تھیں۔ وحشت کا ننگا ناچ ناچ کر وہ ایک روحانی مسرت حاصل کررہےتھی۔جیساانھیں عبادت کرکےایک ازلی سکون مل رہا ہو۔ ان کےچہروں پر رحشیاہ فاتح جذبہ رقص کررہا تھا۔ آدھا مجمع گھروں کو جلانےاور لوگوں کو لاشوں میں تبدیل کرنےمیں مصروف تھا تو باقی آدھےمجمع نےمسجد پر دھاوا بول دیا۔ مسجد کےپیش امام اور موذن کی لا شیں بس سےپہلےگریں اوران کےخون سےمسجد کا فرش سیراب ہونےلگا۔ اس کےمسجد کو تباہ کیا جانےلگا مسجد کےنقش و نگار تو مسخ کیا جانےلگا۔ مسجد کی اینٹ سےاینٹ بجادی گئی۔ اور اس کےممبر پر ہنومان جی کی مورتی رکھ دی گئی۔ کسی نےایک گھنٹا لاکر ٹوٹی ہوئی مسجد میں باندھ دیا۔ زور ور سےگھنٹا بجایا جانےلا۔ اور ہنومان چالیسا پڑھاجانےلگا اور آرتی گائی جانےلگی۔ اور ہنومان کی پوجا کی جانےلگی۔ اس کےبعد ایک حصہ پیر بابا کی درگاہ کی طرف بڑھا۔ درگاہ ویران تھی۔ جو کوئی بھی درگاہ پر رہتا تھا وہ وہاں سےبھاگ گیا تھا۔ مجمع نےاپنےہاتھوں میں پکڑےبیلچوں ،کدالوں سےدرگاہ کو مسمار کرنا شروع کردیا جس کسی مکان کو مسمار کیا جاتا ہی۔دیکھتےہی دیکھتےدرگاہ مسمار کردی گئی۔درگاہ مسمار کرکےزمین بنادی گئی۔ جیسےوہاں کبھی درگاہ کانام ونشان نہ رہا ہو۔ وہ اپنی انکھوں سےیہ ہیبت ناک مناظر دیکھ رہاتھا۔ وہ مجمع کےساتھ ساتھ تھا۔ لیکن ایک تماشائی کی طرح ۔کئی مناظر تو ایسےبھی آئےکےاس کی آنکھوں میں ان مناظر کو دیکھنےکی تاب نہ رہی ۔اس نےاپنی آنکھوں بند کرلیں یا پھر وہ وہاں سےواپس جانےلگا۔ لیکن مجمع میں شامل لوگوں نےاسےروک لیا۔ ”سردارجی.... اتنی جلدی گھبراگئے۔سکھ تو شیر ہوتےہیں۔ اپنےناموں کےآگےشیر کا نام لگاتےہیں۔ لیکن تم تو گیڈر ثابت ہوئی۔ہم جو کررہےہیں تم اسےدیکھ نہیں پارہےہو....“”ارےہم گھاس پتّہ کھانےوالےجنھوں نےکبھی ماس اپنی آنکھوں سےنہیں دیکھا یہ سب دیکھ رہےہیں۔ اور تم تو اپنی کرپان سےایک جھٹکےسےبکرےکا سر الگ کرتےہو۔ تم نہیں یہ سب دیکھ پارہےہو؟ “ان کےعلاوہ کئی طرح کےرقیق طعنے۔اورکوئی موقع ہوتا تو وہ غصےمیں اپنی کرپان نکال کر ان پر ٹوٹ پڑتا۔ لیکن اس نےضبط سےکام لیا۔ یہ موقع ایسا نہیں تھا ک جذبات سےکام لیاجائی۔ اگر اس نےجذبات سےکام لیا تو اس کا انجام بھی وہی ہونےوالا تھا جو اب تک سینکڑوں لوگوں کا ہوچکاتھا ۔لیکن کہاں تک بھاگتا ۔چاروں طرف وحشی پھیلےہوئےتھی۔ اس طرح کی کئی شیطانی ٹولیاں شیطان کو خوش کرنےکےلیےشیطانی کاموں میں مصروف تھی۔ ہر ٹولی مارکاٹ کررہی تھی۔ لاشیں گرارہی تھی۔ گھروں کو جلارہی تھی۔ لوٹ مار کررہی تھی۔ آگ میں لاشیں گرارہی تھی۔ گھروںکو جلا رہی تھی۔ لوٹ مار کررہی تھی۔ آگ میں لوگوں کو زندہ جلا رہی تھی۔ عورتوں کی عصمت دری کررہی تھیں۔ بوڑھیوں کو ننگا کرکےبےعزت کیا جارہا تھا۔ سارا گاو
¿ں وحشی ہوگیا تھا۔ وحشت کا ننگا ناچ ناچنےوالوں میں اگر سارا گاو
¿ں شامل نہیں تھا تو سارا گاو
¿ں تماشائی تو بنا ہوا تھا۔گاو
¿ں کےکسی بھی فرد میں ہمت نہیں تھی کہ ان وحشیوں کو ایسا کرنےسےروکی۔ نہ کسی کےدل میں ایسا جذبہ پیدا ہورہا تھا کہ یہ انسانیت سوز واقعات کےسلسلےکو ختم کرنےکےلیےاڑجائی۔ سڑکوں پر جگہ جگہ مسخ شدہ ،زخمی خوردہ لاشیں پڑی ہوئی تھیں ۔ جلتےگھروں سےگوشت کےجلنےکی بدبو اٹھ رہی تھی جو اس بات کی ثبوت تھا کہ اس آگ میں انسانی جسم جل رہےہیں۔ جب وہ لاشوں کو غور سےدیکھتا تو اسےوہ چہرےشناسا سےلگتے۔ ”ارےیہ لڑکا تو رکشا چلاتا تھا....یہ تو سڑک ڈرائیور ہی۔ اکثر گریس یا آئل لینےکےلیےمیری دوکان پر آتا تھا....ارےیہ تو اس دوکان کا مالک ہی.... ارےیہ لڑکا روزانہ میرےسامنےاسکول جاتا تھا....اس بوڑھےکو اکثر میں نےپیر بابا کےمزار پر بیٹھا ہوا دیکھا ہوں ....یہ بوڑھی عورت تو گلیوں میں جامن اور دوسرےدوسرےپھل بیچی کرتی تھی.... یہ عورت تو پاگل ہےپاگلوں کی طرح سارےگاو
¿ں میں گھومتی رہتی تھی۔جلےہوئےگھر اور دوکانیں بھی اپنی کہانیاں کہتےتھی۔ اس دوکان پرتازہ دودھ ملتا تھا.... یہ دوکان کرانےکی دوکان تھی.... یہ اسٹیشنری کی دوکان تھی....یہاں یہ اسکول کی کتابیں اور کاپیاں ملتی تھی.... اس چائےکی ہوٹل کی چائےبڑی مشہور تھی....لوگ اس ہوٹل کی چائےپینےدوردور سےآتےتھی۔ لاشوں اور جلےہوئےگھروں اور دوکانوں کو دیکھتےہوئےاس پرایک بڑی ہی عجیب سی بےچینی اور وحشت چھائی ہوئی تھی۔ وہ صرف ایک فرد کےبارےمیں جاننا چاہتا تھا ۔جاوید .... جاوید کہا ںہی۔ وہ اس کےبارےمیں جاننا چاہتا تھا۔ اس وحشیانہ تانڈو میں اسےجاوید کہیں دکھائی نہیں دیا تھا۔ کیاوہ کسی جلتےہوئےگھر میں جل کر ختم ہوگیایا پھر کسی طرح اپنی جان بچا کر اس گاو
¿ں سےنکل بھاگنےمیں کامیاب ہوگیا۔ لوگوں کی باتوں سےتو پتہ چل رہا تھا بہت کم لوگ اپنی جانیں بچا کر بھاگ پائےہیں۔ ایک جیپ کا قصہ ہر کسی کی زبان پر تھا ۔ایک آدمی اپنی جیپ میں اپنےپورےخاندان کو لےکر گاو
¿ں سےفرار ہونےمیں کامیاب ہوگیا۔ لیکن دوسرےگاو
¿ں ک سرحد پر دھر لیاگیا ۔اور وہاں پھر بھی وحشت کا ننگا ناچ ناچنےوالےوحشیوں نےاس کےسارےخاندان کو ختم کرکےجیپ میں آگ لگادی اسےزند جلا دیا۔ اگر جاوید کسی طرح گاو
¿ں سےفرار ہونےمیں کامیاب بھی ہوا تو وہ وحشیوں سےکہاں کہاں بچ سکےپائےگا ۔چاروں طرف تو وحشی پھیلےہوئےتھی۔ لیکن اس کی یہ تمام امیدیں دھری کی دھری رہ گئی۔ اسےسڑک کےدرمیان ایک لاش دکھائی دیں۔ جو منہ کےبل پڑی تھی۔ اسےاس لاش کےکپڑےکچھ شناسا سےمحسوس ہوئےاس نےجیسےہی اس لاش کو سیدھا کیا اس کےمنہ سےایک فلک شگاف چیخ نکل گئی۔ ”جاوید بھائی“ یہ جاوید کی لاش تھی۔ اس کا سارا جسم ترشولوں سےچھلنی تھا۔ اور پورےجسم پر تلوارکےگھاو
¿ تھی۔ چہر پر کرب کےتاثرات ،جیسےمرنےسےپہلےاس نےکڑا مقابلہ کیا ہواور کڑی اذیت سہی ہو۔ جس کےلیےوہ اپنی دوکان سےنکل کر ان وحشیوں کےساتھ تماشائی بنا ان کی وحشت کا تماشہ دیکھ رہا تھا۔ اس آدمی کی لاش اس کےسامنےتھی ۔و ہ لاش کےپاس بیٹھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونےلگا ۔آتےجاتےلوگ اسےروتا دیکھ کر کھڑےہوجاتےاور کبھی حیرت سےلاش کو تو کبھی اس کو دیکھنےلگتی۔ پتہ نہیں کتنی دیر تک وہ جاوید کی لاش کےپاس بیٹھا آنسو بہاتا رہا۔ پھر اٹھ کر بوجھل قدموں سےچپ چاپ اپنی دوکان کی طرف چل دیا۔


Contact:-
M.Mubin
http://adabnama.tripod.com
Adab Nama
303-Classic Plaza,Teen Batti
BHIWANDI-421 302
Dist.Thane ( Maharashtra,India)
Email:-adabnama@yahoo.com
mmubin123@yahoo.com
Mobile:-09372436628
Phone:-(02522)256477









 
Copyright (c) 2010 Allao Urdu Novel by M.Mubin Part 11 and Powered by Blogger.